,

کراچی بارشوں میں تباہ، حکومتی اداروں سے بہتری کا مطالبہ ، سماجی ادارے پھر مدد کو پہنچے

جیسے کے آپ کے علم میں ہے ہم ماحولیات سے متعلق تحقیق پر مبنی آرٹیکلز کی سیریز کے آخری چند حصے مکمل کرنے والے ہیں اس سے قبل کراچی میں حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات اور انتظامیہ کی نااہلی پر آپ سے دو حصوں پر مشتمل یہ اسٹوری شئیر کر رہے ہیں ہم امید کرتے ہیں آپ ہماری  حوصلہ افزائی کریں گے

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کی معیشت میں اس شہر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے اس شہرکے ساتھ ہمیشہ کھیلواڑ کیا ہے۔ اس شہر کے باسیوں کو کبھی لندن، کبھی پیرس اور کبھی ایشین ٹائیگر کے خواب دکھا کر دھوکا دیا ہے۔ کراچی میں حالیہ مسلسل تین دن کی بارش نے حکمرانوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کا دعویٰ کر رہے تھے۔اور اس شہر کو جدید ترین

دی انوائرنمٹل کی ٹیم کا دورہ  سرجانی ٹاؤن، خدا کی بستی

شہر بنانے کے لیے وفاق سے 17کھرب یا 10ارب ڈالرکا بھی مطالبہ کرتے نظر آئے ۔

دوسری جانب میئر کراچی اپنی چار سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھ کہ وڈیرہ ذہنیت کے حامل لوگ بلدیاتی نظام نہیں چاہتے۔ سندھ حکومت اور آرٹیکل A.140 ناکام ہوا ہے ہم ناکام نہیں ہوئے ہیں۔ کراچی کے شہری گزشتہ چار سال سے سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور سندھ حکومت نے کراچی کو اے ٹی ایم بنا دیا ہے۔ وسیم اختر اپنی نااہلی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے اور وہ کراچی کو ایک بار پھر لسانیت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے تھے۔

 

کراچی کو پیرس اور یورپ بنانے کے دعویدار کراچی میں تین دن سے جمع پانی بھی نہیں نکال سکی اور بارش کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا۔ شدید بارشوں کی وجہ سے گلستان جوہر میں ایک پہاڑی تودہ گرنے سے کئی مکانات گر گئے تھے۔ کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اتنے خطرناک علاقے میں آبادکاری کی منظوری دینے والے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرپٹ اہلکار اس حادثے کے برابر کے ذمے دار ہیں۔ جنہوں نے اپنی کرپشن سے چائنا کٹنگ کے نام پر شہر کی اربوں روپے کی زمینوں کو بیچ کھایا۔ کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی پر کروڑوں روپے ڈکار لیے گئے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سرجانی، یوسف گوٹھ، سعدی ٹائون میں سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ کھنڈو ڈیم اور حب ڈیم بارش کے پانی سے اوور ہوگیا اور ڈیم کا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ شاہراہ فیصل جو کراچی کی اہم شاہراہ ہے۔ گورا قبرستان، نرسری، ائرپورٹ، ملیر سے قائد آباد تک یہ شاہراہ ایک بڑی جھیل کا منظر پیش کرتی نظر ائی ۔ اور اس شاہراہ پر موجود گاڑیاں، موٹر سائیکل مکمل طور پر ڈوبی ہوئی تھیں ۔ مسافر کئی کئی گھنٹے بارش میں پھنس ہوئے تھے، ایسے میں لوگوں کی جو درگت بنتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ایسی ہی صورتحال سرجانی میں پیدا ہوگئی اور بارش کے پانی نے

طوفیق پاشا اور رابن ہڈ آرمی ملیر میں راشن بانٹتے ہوئ

سیلابی صورتحال اختیار کر لی تھی۔
کراچی میں بارش نے مکمل تباہی کر لی تھی شہر ڈوبا رہا چوبیس گھنٹے بعد وزیر اعظم کو کو خیال آیا کراچی کی عوام سے ہمدردی کا اور پھر ایک ٹوئیٹ کی جو صرف اور صرف ہمدردی کے سوا کچھ نہیں تھا۔۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بھی خاموشی سے تماشا کرتے رہے نہ کشتی لے کر نکلے اور نہ ہی صدر ہاؤس سے جب کے ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے یہی سوال کیا تو جواب میں کہنے لگے ہم جلد کراچی پیکج کا اعلان کریں گے کراچی کی عوام چیختی رہی مگر کوئی مدد کو نہیں آیا۔
کراچی سے منتخب حکمران جماعت کے نمائیندے صرف وڈیوز اور بیانات دیتے نظر آئے مگر کیسی نے ہمت نہیں کی کیوں کے سابق مئیر کی طرح یہ بھی اختیارات کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

اب یہ شہر کفالت کرنے والوں کا شہر ہے اس بار بھی جب کراچی کو ضروت پڑی تو نوجوان اور غیر سرکاری ادارے اپنے شہریوں کی اور شہر کی مدد کو پہنچے جگہ جگہ جہاں جہاں عوام شہری مصیبت میں تھے وہاں کراچی کے بچے اپنے شہریوں کی مدد کو پہنچ گئے اور اپنی مدد آپ شہر کی زمہ داری سنبھالی اور ایک چھوٹی سی شرم حکومت اور انتظامیہ کو بھی دلائی کے کم سے کم کچھ کرنہیں سکتے اس مشکل حالات میں اپنے محلوں سے تو نکلوں مگر کہاں ایسا ہوتا تو کراچی کی حالت ایسی نہیں ہوتی جیسے بنی ہوئی تھی ۔

آرٹسٹس فار فلڈ ریلیف

کراچی میں آرٹسٹ فور فلڈ ریلیف پاکستان جو کے فنکاروں کی طرف سے حالیہ بارشوں میں شہر کراچی کی عوام کی ایمرجنسی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے والا ایک گروپ ہے تین دن کی موسلادھار بارشوں کے بعد انہوں نے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہر ارٹیسٹ اپنی پینٹگ فروخت کرتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں خرچ کیا جارہا ہے  ارٹیسٹ فور فلڈ ریلیف سماجی ادارے

The Environmental, Smile Sunshine, Food for Thought

 کی مدد کر رہا ہے جو قابل ذکر ہے دی انوائیر مینٹل آرٹسٹ فور فلڈ ریلیف اور اس میں حصہ ڈالنے والے تمام فنکاروں کا شکریہ ادا کرنا بجا ہوگا کیوں کے یہ شہر ہم سب کا ہے اور کراچی کو سنبھالنے کی کچھ زمہ داریاں ہم سب پر بھی عائد ہوتیں ہیں ان تمام مسائل کو ہم اس انتظامی غفلت کو مدنظر رکھتے ہوئے حل تو نہیں کرسکتے مگر اپنے حصہ کی زمہ داری پوری کرسکتے ہیں ۔

علاج ٹرسٹ بھی باقی سماجی اداروں کی طرح کام کر رہا تھا۔ کراچی کا سب سے پوش اور مہنگا علاقہ ڈیفنس بھی بارش کی وجہ سے شدید متاثر رہا تین دن بارش کے بعد کوئی ڈیفینس کا پوچھنے والا نہیں تھا۔ لوگوں کے گھروں میں چار سے پانچ فٹ پانی کھڑا رہا لوگوں کے لاکھوں کروڑوں روپے کا کاروبار تباہ ہوگیا تھا ڈی ایچ اے سی بی سی بھی خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ جب ڈیفینس کے رہائشیوں نے ان سے سوال کیا تو اپنے دفاتر کے باہر کنٹینرز لگائے تاکہ کوئی ان سے ان کا حساب نہ مانگ سکے علاج ٹرسٹ سماجی کارکن جبران ناصر بھی اپنے شہریوں کی مدد کو پہنچے اور کئی روز تک اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں سے نکاسی آب پانی کو نکالتے نظر آئے اور ساتھ ہی اپنے سوشل میڈیا پر انتظامی غفلت اور انتظامیہ کو بھی ہوش دلاتے رہے

علاج ٹرسٹ کی ٹیم رات 4 بجے بھی بخاری کمرشل سے پانی نکالنے میں مصروف

گاربیج کین جو کے کراچی میں کچرا ریسائیکل کرنے کی کمپنی ہے وہ بھی اس ساری صورتحال میں اپنی مدد آپ کے تحت کراچی کی عوام کی خدمت کر رہی تھی اور بارش سے زیادہ متاثرہ علاقہ کھارادر میں بارش کے پانی کا نکاسی آب کا راستہ ہموار کرنے میں مصروف تھی گاربیج کین نے دس دن لگا تار کام کیا اور آخر کار وزیر مینشن جو کے قائد اعظم کی رہائش گاہ بھی ہے وہاں سے پانی کی نکاسی آب کو ممکن بنایا واضح رہے جناح مینشن کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بار بار حکم دیا مگر یہاں بھی انتظامیہ ناکام نظر ائی اور کراچی کے نوجوانوں نے خود اس علاقے کو صاف کیا ۔
دی انوائیر منٹل بھی اس ساری صورتحال میں کراچی کے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف تھا

چھیپا ایدھی فاؤنڈیشن جے ڈی سی فاؤنڈیشن رابن ہڈ آرمی اور ایسے بہت سارے ادارے ہیں جن کام نام تک ہم نہیں جانتے شہر اور شہریوں کی مدد ان مشکل حالات میں کر رہے تھے یہ وہ پودے ہیں جو عبدلستار ایدھی نے لگائے تھے یہ ایدھی کے بچہ کیسے اپنے روشنیوں کے شہر کراچی کو اکیلے چھوڑ سکتے ہیں ۔

گاربیج کین کی ٹیم رات گئے کھارادر سے پانی نکالتے ہو                        

کراچی میں بارش کی تباہ کاری سے ہر شخص پریشان تھا اور سوال کر رہا ہے کہ منتخب حکومت کہاں ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کر رہی ہیں۔ ان دونوں حکومتوں کی کھینچا تانی نے شہر کراچی کو مسائلستان بنا دیا ہے اور بارش سے متاثرہ افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ کے قریب ہوچکی ہے لیکن یہاں کے عوام اب پھر کسی عبدالستار ایدھی کے منتظر ہیں کیونکہ دیانت دار اور ایمان دار قیادت ہی کراچی کے عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ ہم نے اس سے قبل بھی اپنے کالم میں حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ کوہ سلیمان سے ملیر ندی میں آنے والا برساتی پانی جو سمندر میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے اگر ملیر ندی میں بارش کے اس پانی کو جمع کرلیا جائے تو ایک اور حب ڈیم قائم ہوسکتا ہے اور یہ ملیر ڈیم کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، گلستان جوہر، ڈیفنس ویو، محمود آباد، اختر کالونی، منظور کالونی، پی ای سی ایچ سوسائٹی، قیوم آباد، کشمیر کالونی ودیگر قرب وجوار کی آبادیوں کو پانی کی ضرورت ایک سال کے لیے پورا کرسکتی ہے اور ٹینکر مافیا سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو عوام کی پریشانی اور مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہے۔

کراچی بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اور کے الیکٹرک کی لوٹ مار اووربلنگ کے ساتھ ساتھ بدترین لوڈشیڈنگ ایک عذاب بنی ہوئی تھی۔ گلی گلی میں گٹر ندی نالے کا منظر پیش کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے موذی امراض پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ کراچی پر قبضہ کرنے کے لیے تو ہر سیاسی جماعت نے اپنی آستینیں چڑھائی ہوئی ہیں لیکن کراچی کے عوام کی عملی طور پر کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی کو جدید یا ماڈل شہر بنانے کے دعوے کرنے کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے ہوںگے۔ ماڈرن سٹی کے بجائے اسے کراچی ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ جو دستیاب وسائل ہی ایمان داری کے ساتھ اس شہر پر خرچ کر دیے جائیں تو یہ شہر ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مادڑن سٹی کے لیے 15ارب ڈالر کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن وفاق تو انہیں پانچ ارب روپے بھی نہیں دے رہا ہے تو اس طرح کی بیان بازیاں عوام کو سیاست کی نظر کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ بلدیہ کراچی کا سیشن پورا ہوچکا ہے۔ اس تمام عرصے میں اختیار کا رونا رونے والے اب پارٹی جھنڈوں کے ساتھ ترقیاتی کاموں کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ اہل کراچی ان حالات میں ایک بار پھر اپنے با اختیار مئیر کی تلاش میں ہیں اور کراچی شہر کو آج پھر ایک اور دیانت دار مئیر کی ضرورت جس کے پاس مکمل اختیارات ہوں جو شہر کے مسائل کو سمجھتا ہو جو گندگی اور غلاظتوں کے شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنا دے۔ اس کے لیے ضروت اس امر کی ہے کہ اہل کراچی جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں ورنہ گزشتہ چار سال کی طرح شہر کراچی گندگی کا ڈھیر بنا رہے گا۔ کراچی کی عظمت رفتہ اس وقت بحال ہوگی جب اہل کراچی اپنے سر کا تاج اس شخص کو بنائیںگے جو کراچی کے شہریوں کو زخم دینے کے بجائے ان کے زخموں پر مرحم رکھنے والا ہو۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply