,

کراچی بارشوں میں تباہ، رہائشی مہینہ بھر بعد بھی حکومتی اداروں کے سنجیدہ اقدام کےانتظار میں۔

جیسا کے آپ کے علم میں ہے ہم ماحولیات سے متعلق تحقیق پر مبنی آرٹیکلز کی آخری چند حصے مکمل کرنے والے ہیں اس قبل کراچی میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی اور انتظامی نااہلی پر ہم نے اکیس ستمبر کو ایک سٹوری کی جس میں ہم نے کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد سماجی اداروں کی ایک بار پھر شہر اور شہریوں کی مدد کرنے پر بات کی تھی۔۔

دوسرا حصہ
آج ہم انتظامی غفلت اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی پر بات کریں گے

کراچی کو پاکستان کی معیشت کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے کراچی سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اس کے باوجود شہر کا حال خاص طور پے ماحولیاتی حوالے سے بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ روز صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کو کراچی کے حالات کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں مگر کراچی کے زمہ داروں کا تعین نہیں ہو پاتا۔ اس ساری صورتحال میں کراچی کی عوام وفاق سے لے کر صوبائی حکومتوں اور شہری انتظامیہ کو زمہ دار قرار

سرجانی ٹاؤن 26 ستمبر 2020۔ مونسون بارش کو گزرے 3 ہفتے ہوگئے-فوٹو، دی انوائرنمنٹل۔۔

دیتی ہے۔

 

جب کے کراچی کی عوام روز ان حالات کا سامنا کرتی ہیں۔ ہم حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کے حالات آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی میں مون سون بارشوں کی پہلی بارش نے انتظامی پول کھول کے رکھ دیا اس بار کراچی کے شہریوں کی امید تھی کے کراچی اس سال کے بارش میں تھوڑا بہتر ہوگا مگر کہاں؟ کراچی کی عوام کی قسمت حالت تو گزشتہ سال سے زیادہ بدتر تھی۔

 

محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں مون سون بارشوں کے پہلی سپیل میں تقریباً 40 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ یہ مون سون کا پہلا مرحلہ تھا اس دوران ہی کراچی کے اہم شاہراہوں پر پانچ سے چھ فٹ پانی جمع ہوگیا تھا۔ صوبائی حکومت بار بار دعویٰ کر رہی تھی کے حالات بہتر ہیں کراچی کے مگر کراچی کی عوام کو حالات کہیں بہتر نظر نہیں آئے۔

اس کے بعد اگلے روز پھر محکمہ موسمیات نے عندیہ دیا مون سون بارشوں کا سسٹم کراچی میں موجود ہے جس میں سے 120 میلی میٹر سے زیادہ بارش ہونے کے امکانات ہیں۔ ایک بار پھر کراچی کی عوام پر خوف طاری ہوا کیونکہ پہلی بارش سے اتنے سنگین حالات پیدا ہوگئے تھے اب دوسرا سسٹم بھی برسنے کو تیار تھا۔

دوسرے سپیل نے تو جو جیسے کراچی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ سرجانی ٹاؤن سے لے کر کورنگی تک پورے کراچی میں چھ سے سات فٹ پانی کھڑا تھا۔ عوام اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کررہی۔ تھی سماجی ادارے اپنے اپنے وسائل رکھتے ہوئے شہر میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔ دوسرا سپیل اس قدر برسا کے مسلسل پانچ روز تک وقفے وقفے سے موسلادھار بارش ہوتی رہی۔

کراچی کی عوام شہری انتظامیہ سے رابطے کرتی وہاں سے ایمرجنسی نمبرز بھی بند کردئیے گئے تھے۔ نہ کے ایم سی نہ ڈی ایم سی سے رابطہ ہو پارہا تھا۔

خیابانی بخاری ڈی ایچ اے۔ بارشوں کے تین دن بعد کا سیلاب جیسا سمع -فوٹو، دی انوائرنمنٹل۔۔

سابق مئیر ہمیشہ کی طرح اختیارات کا رونہ رو رہے تھے اور کراچی کی عوام چھ سے سات فٹ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔

 

مسلسل پانچ روز تک جاری رہنے والی بارش تھمنے کے بعد کچھ امید پیدا ہوئی کے شاید اب حکومتوں اور شہری انتظامیہ کو ہوش آئے مگر پھر بھی وہی صورتحال برقرار رہی اور وفاق اور صوبائی حکومت نے مہذ اعلانات ہی کئیے اور کراچی اب بھی ڈوبا ہوا تھا ۔
کراچی کا پوش علاقہ ڈیفینس میں واقع بخآری کمرشل میں پانچ روز گزر جانے کے بعد بھی ڈی ایچ اے سی بی سی پانی کی نکاسی نہ کرسکی۔ لوگوں کے گھروں میں چار سے پانچ فٹ پانی جمع ہوگیا تھا۔ اشیاء خوردونوش تک رسائی ڈیفینس کے رہائشیوں کے لیے مشکل ہوگئی تھی ۔

پھر ڈیفینس کے رہائشیوں نے اپنی انتظامیہ یعنی ڈی ایچ اے اور سی بی سی کے دفاتر پر جا کر شکایات درج کرائیں۔ مگر اب بھی شہریوں کی شکائیت کا ازالہ نہ ہوسکا۔ ان ساری صورتحال سے دل برداشتہ ہو کر ڈیفینس کے رہائشیوں نے ڈی ایچ اے اور سی بی سی کے دفاتر کے باہر احتجاج کیا اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کے اگر وہ بارش سے جمع ہونے والے پانی کی نکاسی آب کرنے میں ناکام ہے تو انتظامیہ مستعفیٰ ہو اور ساتھ ہمیں فورینسک اور ماحولیاتی آڈٹ

رپورٹ بھی دیں جو ہم سالانہ ڈی ایچ اے اور سی بی سی کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

واضح رہے ڈیفینس میں بارش کے بعد بھی کاروباری زندگی متاثر تھی اور بیسمنٹ میں موجود دکانداروں کا لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوگیا تھا۔پانچ روز مسلسل بارش ہونے کے بعد بھی چار روز تک بجلی معطل تھی۔ ایک طرف بارش کا پانی مشکلات کا باعث تھا تو دوسری طرف کے الیکٹرک کی انتظامیہ بھی مکمل ناکام تھی۔ کئی روز ہو گئے تھے بارش کو رکے ہوئے مگر اب بھی ڈیفینس سمیت کراچی کے تقریباً 70 فیصد علاقوں میں بجلی بحال نہیں

ہوئی تھی۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے بتایا کے گھروں سڑکوں اور شاہراہوں پر پانی موجود ہے اس لیے بجلی بحال نہیں کرسکتے۔

آج ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کا پریس کلب پے احتجاج، 3 اکتوبر 2020۔ایک مہینہ گزر گیا رہائشیوں کی شکایت اب تک نہیں سنی گئ -فوٹو، دی انوائرنمنٹل۔۔

 

لیکن یہاں کے الیکٹرک کی انتظامیہ کا بھی پول کھل گیا کئی دہائیوں سے کراچی میں بجلی سپلائی کرنے والی کے الیکٹرک کے انتظام کا بھی یہ حال تھا کے

دوران بارش بجلی کی سپلائی بند کرنی پڑی اور قصوروار مون سون کی بارشوں کو قرار دیا۔

 

کراچی جو پاکستان کی معیشت کا حب ہے یہاں نام نہاد موبائل سم سروسز فراہم کرنے والے اداروں کا بھی یہ حال تھا کہ تین روز تک موبائل سگنلز بھی غائب تھے۔ انتہا تو یہ تھی کے سروسز کی بحالی کے بعد کمپنیوں کی طرف سے کسی قسم کی وضاحت بھی نہیں دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تمام کمرشل ادارے جو اربوں روپے سالانہ کراچی سے کمائی کرتیں ہیں ان کے انتظام کا حال بھی کراچی کے عوام کے سامنے آگیا۔ سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا شہری اپنے پیاروں سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔

انٹرنیٹ کی سپلائی کرنے والی کمپنیز کا بھی یہی حال تھا۔ بارش کو رکے ساتواں روز تھا پھر بھی انٹرنیٹ سپلائی کہیں بند تو کہیں بلکل سست رفتاری سے چل رہی تھی اور آخر کار انٹرنیٹ سپلائی میں نو دن بعد کچھ بہتری آئی ۔

کراچی میں مونسون کی بارشوں کا سلسلہ تھم ضرور گیا تھا مگر اب بھی خطرہ موجود ہے۔ اس سال کراچی میں ہونے والی مون سون بارشوں نے گزشتہ پینتیس سال کا ریکارڈ توڑا۔ مگر سوال یہ ہے کیا اگلے سال جب مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا ایک بار پھر کراچی کے شہریوں کو اس قدر سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کلائمٹ چینج اور ماحولیاتی سماجی کارکن 2019 کی کلائمٹ مارچ میں پہلے ہی بدلتے ہوئے موسم اور بارشوں کی وارننگ دے چکے تھے، مگر پھر بھی کسی نے نہ سنی۔

کراچی کے ان حالات کی ذمہ داری کسی کو تو قبول کرنی ہوگی۔ کئی دہائیوں سے کراچی کے بڑے اور اہم نالوں کی صفائی نہیں ہوئی۔ حالات اس سے بھی خطرناک ہوسکتے ہیں اگر کراچی کے انتظام کو بہتر نہ کیا گیا۔

ہم امید کرتے ہیں کے کراچی کو آئیندہ ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کے اگلے سال کی مون سون کی بارشوں سے پہلے انتظامیہ کیا تیاری کرتی ہے۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply